FORGOT YOUR DETAILS?

ایف پی سی سی آئی کی بجٹ کانفرنس میں اہم تکنیکی مسائل پر روشنی ڈالی گئی ثاقب فیاض مگوں، قائم مقام صدر، ایف پی سی سی آئی

کراچی 7 جوالئی 2025 فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے تحت ایک اہم وفاقی بجٹ کانفرنس منعقد ہوئی؛ جس کی صدارت قائم مقام صدر، ایف پی سی سی آئی، ثاقب فیاض مگوں نے کی۔ یہ کانفرنس ایف پی سی سی آئی کے ہیڈ آفس، فیڈریشن ہاؤس کراچی میں منعقد کی گئی؛ جس کا مقصد بجٹ 26-2025 میں موجود تکنیکی مسائل کو اجاگر کرنا اور ان کے فوری حل کے لیے تجاویز پیش کرنا تھا۔ اس کانفرنس میں ملک بھر سے مختلف شعبہ جات کی ٹر یڈ باڈیز، ایسوسی ایشنز اور چیمبرز کے نمائندوں نے بڑی تعداد میں فیزیکلی اور آن الئن شرکت کی۔ اس کے عالوہ اس اہم کانفرنس میں ایف بی آر اور کے سینئر افسران بھی شریک ہوئے۔ قائم مقام صدر، ایف پی سی سی آئی، ثاقب فیاض مگوں نے شرکاء PRAL پی آر اے ایل کو آگاہ کیا کہ سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کے اندر متعارف کرائے گئے قوانین جیسے کہ ای انوائسنگ اور ای بلٹی کو ہر کنسائمنٹ کو مسترد AAاور 37 Aپر الگو کرنا عملی طور پر ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ بزنس کمیونٹی نئے سیکشنز 37 کرتی ہے؛کیونکہ یہ دیانتدار ٹیکس دہندگان کو بھی مجرموں کی طرح پیش کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر اپنے ٹیکس اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے اور اب قانونی طور پر رجسٹرڈ اور قانون پر عمل کرنے والے کاروباری افراد کو گرفتار کر کے جیل بھیجا جا رہا ہے؛جو کہ سراسر ناانصافی ہے۔ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر آصف سخی نے کہا کہ تاجر برادری حکومت سے تعاون کے لیے تیار ہے؛لیکن اس کی قیمت عزت نفس اور وقار کی قربانی نہیں ہو سکتی۔ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر ناصر خان نے زور دیا کہ موجودہ صورتحال میں ملک کی اقتصادی پالیسیاں بے سمت ہو چکی ہیں اور موثر حکمرانی کا فقدان بدامنی کا باعث بن سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تاجر طبقہ شدید مالی دباؤ کا شکار ہے اور فیکٹریاں بند کرنے پر مجبور ہو رہا ہے۔سینئر ممبر ایف پی سی سی آئی حاجی محمد افضل نے نشاندہی کی کہ ایف بی آر غیر رجسٹر ڈشدہ کاروباری سر گرمیوں پر قابو پانے میں ناکام رہا ہے اور ایسے اداروں کو کاروبار کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے جو کہ رجسٹرڈ نہیں ہیں۔پاکستان وناسپتی مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے چیئرمین شیخ عمر ریحان نے کہا کہ بجٹ میں شامل مجوزہ قوانین کی وجہ سے کئی صنعتی شعبے بند ہونے کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ ہم ڈیجیٹالئزیشن کے حق میں ہیں؛ لیکن، ان نئے قوانین کے ہو تے ہوئے یہ تعاون ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 2 الکھ روپے سے زائد کی نقد رقوم کی انوائسنگ کرنا موجودہ حاالت میں ناممکن ہے؛ کیونکہ، نقد رقم کو بینکنگ طریقہ کار کے طور پر مانا نہیں جا رہا۔ٹاول مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے نمائندوں نے بتایا کہ ہمارے کاروبار اس وقت خسارے میں جا رہے ہیں اور حکومت ہمیں چور قرار دے رہی ہے۔ اس طرح ہماری برآمدی منڈیاں ہم سے چھن جائیں گی اور بین االقوامی خریدار ہم سے پوچھ رہے ہیں کہ آیا ہم اپنا کاروبار دبئی یا کے تحت درپیش مشکالت SRO 709 (1)/2025 کسی اور جگہ منتقل کر سکتے ہیں؟ایل این جی ایسوسی ایشن کے نمائندوں نے کا ذکر کیا اور بتایا کہ ای انوائسنگ کے نظام کی تنصیب کے اخراجات بہت زیادہ ہیں؛ جنہیں یہ شعبہ برداشت نہیں کر سکتا۔ مزید یہ کہ آر ٹی اوز میں ''الک اپ'' جیسے سیٹ اپ بنائے جا رہے ہیں؛ جس سے تاجر طبقہ خوفزدہ ہے۔پاکستان سیکیورٹی ایجنسیز سے متعدد بار رابطے کی کوشش کی؛ مگر PRAL یسوسی ایشن کے نمائندوں نے شکایت کی کہ انہوں نے پی آر اے ایل انہیں سسٹم انٹیگریشن کے طریقہ کار سے متعلق کوئی واضح رہنمائی نہیں دی جا رہی اور ایف بی آر کے پورٹلز بھی ان قوانین کے نفاذ کے لیے ریڈی نہیں ہیں۔آخر میں چیف کمشنر،ان لینڈ رویونیو،ایل ٹی او کراچی، زبیر بالل،نے ایف پی سی سی آئی کو یقین دہانی کروائی کہ ان تمام تکنیکی نکات پر سنجیدگی سے غور کیا جائے گا اور کاروباری طبقے کے ساتھ ایک جامع، نتیجہ خیز اور مسلسل مشاورتی عمل جاری رکھا جائے گا۔

TOP