FORGOT YOUR DETAILS?

گیس 2,750 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو قیمتوں میں اضافہ صنعتوں کو بند کر دے گا عاطف اکرام شیخ

کراچی: عاطف اکرام شیخ، صدر ایف پی سی سی آئی، نے حکومت سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ وہ توانائی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی اپنی پالیسی کا فوری طور پر از سر نو جائزہ لے؛ خاص طور پر کیپٹو گیس کی قیمت میں 2 روپے 50 پیسے اضافے کا فیصلہ اور جس کی وجہ سے جنوری 2023 کے بعد سے 223 فیصد کا اضافہ ہو چکا ہے اور اب یہ 2,750 فی ایم ایم بی ٹی یو ہوگئ ہے - یہ پاکستان کے صنعتی شعبوں کی بقا کے لیے خطرہ ہے اور وہ مکمل طور پر تباہی کی نہج پر ہیں۔

عاطف اکرام شیخ نے وضاحت کی کہ توانائی کے بڑھتے ہوئے اخراجات کا براہ راست نتیجہ تمام صنعتی شعبوں میں پیداواری الگت میں اضافہ ہے، جس سے کاروباری اداروں کو ان اخراجات کو صارفین پر منتقل کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے اور اس کے نتیجے میں قیمتوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ دو سالوں سے پہلے ہی مہنگائی سے لڑنے والے صارفین پر مالی دباؤ کو بہت بڑھ چکا ہے۔

ایف پی سی سی آئی کے سربراہ نے زور دیا کہ اس کے نتیجے میں صارفین کی طلب میں مزید کمی واقع ہو گی۔ جس سے مینوفیکچرنگ سرگرمیوں میں مزید کمی آئے گی۔ نتیجے میں آنے واال افراط زر بھی مستقبل قریب میں شرح سود میں کمی کے کسی امکان کو مسترد کردے گا۔ جو پرائیویٹ سیکٹر کے لیئے مزید تنزلی کا باعث بنے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس مندی سے جو پہلے سے ہی بے روزگاری اور غربت کے سنگین اثرات ہیں اور ریکارڈ بلند سطح پر ہیں اور فوری مداخلت کی عدم موجودگی میں اس میں مزید اضافہ ہو گا۔

عاطف اکرام شیخ نے حکومت پر زور دیا کہ وہ اپنے توانائی کی قیمتوں کے تعین کے فریم ورک کا ایک ہمہ گیر دوبارہ جائزہ لے؛ کیونکہ صنعتی صارفین کے لیے بجلی کی قیمتیں 17 سینٹ فی کلو واٹ گھنٹہ سے زیادہ ہیں؛ جو کہ بنگلہ دیش اور انڈیا جیسی عالقائی معیشتوں کے مقابلے دو گنا زیادہ ہیں۔ گیس کی قیمتوں میں ایک اور اضافے کے ساتھ، مینوفیکچرنگ کی سرگرمیاں پاکستان میں مالی طور پر ممکن نہیں رہیں گی اور ان حاالت میں ملک میں کوئی سرمایہ کاری - ملکی یا غیر ملکی - نہیں ہوگی۔

آصف انعام، نائب صدر ایف پی سی سی آئی، نے تجویز پیش کی کہ حکومت صنعتی صارفین کے لیے بجلی کے نرخوں سے کراس سبسڈی کو فوری طور پر ختم کرے؛ تاکہ انہیں 9 سینٹ فی کلو واٹ کی عالقائی سطح پر مسابقتی سطح پر الیا جا سکے۔ اس سے نہ صرف گیس پر مبنی کیپٹیو جنریشن سے نکل کر تبدیلی کی ترغیب ملے گی اور صنعتی سرگرمیوں کو بھی متحرک کیا جا سکے گا اور روزگار کی تخلیق، آمدنی پیدا کرنے اور مجموعی اقتصادی استحکام کا باعث بنے گا۔

آصف انعام نے مزید کہا کہ یہ معیشت کو عالمی سطح پر مزید مسابقتی پوزیشن کی طرف لے جائے گا۔ پاکستان کو سرمایہ کاری اور مینوفیکچرنگ کے لیے ایک پرکشش مقام بنانا اس کا مقصد ہونا چاہیے۔

ایف پی سی سی آئی حکومت اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ باہمی بات چیت کے لیے تیار ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ایک متوازن، مستقبل کے حوالے سے توانائی کی پالیسی تیار کی جائے جو کہ نہ صرف فوری اقتصادی چیلنجوں سے نمٹ سکے؛ بلکہ، پاکستان میں ایک لچکدار، مسابقتی اور پائیدار صنعتی شعبے کی بنیاد بھی رکھی جا سکے۔

بریگیڈیئر افتخار اوپل، ایس آئی (ایم) ، ریٹائرڈ

سیکرٹری جنرل

TOP