FORGOT YOUR DETAILS?

یا خوردہ قیمت اور ٹیکس سے دیئے جانے والے تمام استثن ٰی ختم کیا جائے (MRP )چائے پتی پر فکس ایم آر پی

کراچی (15 اپریل 2025) صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے جانے کی درآمد سے متعلق بے ضابطگیوں کو فوری طور پر حل کرنے اور پالیسی مداخلت پر زور دیا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی ہے کہ چائے کو ہر ایک انسان کے لیے بنیادی ضرورت اور فوڈ آئٹم سمجھا جانا چاہیے کیونکہ یہ اصولی طور پر لگژری آئٹم نہیں ہے ۔ لیکن اس وقت ایمپورٹ اسٹیج پر اس کو ایک لگژری آئٹم کی طرح دیکھا جاتا ہے صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے کہا کہ چائے کے چھوٹے و درمیانے درجے کے تاجر ٹیکس پالیسیوں اور ضوابط میں مختلف بے ضابطگیوں اور کمزوریوں کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں مثلاً، درآمدی مرحلے پر چائے پتی کو غیر منصفانہ طور پرتیار شده مصنوعات کے طور پر لیا جاتا ہے جبکہ حقیقتاً چائے پنی ایک خام مال ہے؛ کیونکہ ، ایمپورٹ کے بعد اس کی پروسیسنگ بلینڈنگ پیکنگ اور مارکیٹنگ کی جاتی ہے لہذا، ایف پی سی سی آئی سمجھتی ہے کہ چائے پئی کی درآمدی قیمت پر کل ڈیوٹیوں اور ٹیکسوں کی مد میں تقریباً 70 فیصد وصول کرنا ایک ظلم کے لیے نا قابل برداشت ہیں صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے مزید کہا SMEs ہے اور چائے پتی پر اتنے ٹیکسز کہ پاکستان کے سماجی و اقتصادی ڈھانچے اور مزدور طبقے کی حرکیات کے پیش نظر پاکستان میں زیادہ تر چائے کو سادہ غذا ؤں جیسا کہ روٹی یا پراٹھے کے ساتھ کنسٹرکشن ورکرز، فیکٹری لیبر یومیہ اجرت پر کام کرنے والے اور معاشرے کے نچلے ترین طبقے کے افراد استعمال کرتے ہیں۔ لہذا، یہ امر جانے کی قیمتوں کو کم اور مستحکم رکھنے کے لیے کاروباری برادری کے لیے آسان اور سازگار ماحول کا متعقاضی ہے ۔ نائب صدر ایف پی سی سی آئی اور پاکستان کی ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین امان پراچہ نے بتایا کہ حکام نے چائے کے لیے 1,200 روپے فی کلو کی غیر حقیقی اور غیر منصفانہ ایم آر پی یا خورده قیمت مقرر کی ہے؛ جبکہ چائے کی قیمتیں دراصل 800 سے 900 روپے فی کلو کے حساب سے شروع (MRP) کو اصل قیمت کے بجا نے 1,200 روپے فی کلو کے حساب سے SMES ہوتی ہیں نتیجتاً، چانے کے شعبے میں کا م کرنے والی ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے جو کہ انتہائی غیر منصفانہ اور ظالمانہ اقدام ہے نائب صدر ایف پی سی سی آئی امان پراچہ نے وضاحت کو ختم نہیں کیا گیا تو چانے کی قیمتوں میں صارفین کے لیے 300 روپے فی کلو کا اضافہ متوقع (MRP) کی کہ اگر ایم آر پی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت اچھے معیار اور عوام الناس کے لیے چائے کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے چانے کے تاجروں کو چائے کی قیمتوں کو کم سے کم سطح پر رکھنے کے لیے سہولت فراہم کرے۔ انہوں نے واضح کیا کہ حکومت کو غیر تیار شده خام مال کے طور پر  زیادہ سے زیادہ خورده قیمت متعین نہیں کرنی چاہیے اور ایم آر پی صرف ٹی بیگز یا حتمی پیک شدہ مصنوعات کے لیے ہی درآمدی مرحلے پر مقرر کی جانی چاہیے امان پراچہ نے مزید کہا کہ خام مال کے طور پر منگوائی جانے والی چائے کے لیے کا تعین کرنا کوئی معاشی تجارتی یا ریگولیٹری معنی نہیں رکھتا MRP درآمدی مرحلے پر ایمپورٹ کیے جانے والی چائے پتی کے لیے درآمدی مرحلے یا کسٹم کی بنیاد پر

بریگیڈیئر افتخار اوپل، ایس آئی (ایم)، ریٹائرڈ۔

سیکرٹری جنرل ایف پی سی سی آئی

TOP