گندم کی امدادی قیمتوں پر سبسڈی کا بوجھ عام عوام پر نہیں ڈاالجانا چاہیے: عاطف اکرامٓ ،شیخ، صدر ایف پی سی سی آئی
کراچی( 2 مئی 2024): صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے کہا ہے کہ کاشتکاروں کے لیے گندم کی امدادی قیمت جاری رہنی چاہیے؛ کیونکہ انہیں اپنی فصلوں کی ضمانت شدہ فروخت کے لیے سپورٹ میکنزم کی ضرورت ہے۔ تاہم، یہ مالی بوجھ عوام پر مہنگے گندم کے آٹے کی شکل میں منتقل نہیں کیا جانا چاہیے؛ جوکہ پاکستان کے لوگوں کے لیے سب سے اہم غذائی جزو ہے۔سنیئر نائب صدر ایف پی سی سی آئی ثاقب فیاض مگوں نے وضاحت کی کہ نجی شعبہ گندم اس وقت درآمد کرتا ہے جب گندم کی طلب اور رسد میں فرق ہوتا ہے۔ دوسری صورت میں ملک میں یہ فرق گندم کی قلت کا باعث بن سکتا ہےاورملک کے لیے غذائی تحفظ کے مسائل اور قیمتوں میں اضافے کے ذریعے عوام کا استحصال ہو تا ہے۔ واضح رہے کہ نجی شعبے کو گندم کی قلت پر قابو پانے کے لیے ستمبر 2023 سے گندم درآمد کرنے کی اجازت دی گئی تھی تاکہ ذخیرہ اندوزی کو روکا جا سکے اور آٹے کی قیمتوں کو مستحکم رکھا جا سکے۔ ثاقب فیاض مگوں نے بتایا کہ حکومت کے اپنے اندازوں کے مطابق اس سال گندم کی 25 الکھ ٹن کی کمی تھی۔ جبکہ آزاد ذرائع نے اس کمی کو 30 الکھ ٹن بیان کیا۔ لہذا، قومی غذائی تحفظ کی وزارت اور کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) دونوں نے نجی شعبے کو گندم درآمد کرنے کی اجازت دی لیکن اس میں کسی قسم کی سبسڈی شامل نہیں تھی۔ ای سی سی نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے گندم کی درآمد کے لیے ایل سی کھولنے کے لیے بھی کہا۔ثاقب فیاض مگوں نے کہا کہ پرائیویٹ سیکٹر کے گندم درآمد کنندگان یا نگران حکومت کو سپالئی کے خسارے کو پورا کرنے کا الزام دینا ناانصافی ہے؛بجائے اس کے کہ ان کی بروقت درآمدات کو سراہا جاتا۔جبکہ گندم کے درآمد کنندگان نے ہذا، ان کی نیت پر شک کرنا نہ حکومتی پالیسیوں اور ضابطوں کے مطابق گندم درآمد کی ہے۔ لٰ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ ملک کے غذائی تحفظ کے مستقبل کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ ثاقب فیاض مگوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس وقت پائپ الئن میں موجود گندم کی درآمدات بھی حکومتی پالیسیوں اور تمام قابل اطالق ٹیکسز اور ڈیوٹیوں کی مکمل تعمیل کے تحت کی جا رہی ہیں۔ مزید برآں، اگر ہم گندم جیسی ضروری اور انتہائی اہم اشیاء کے درآمد کنندگان کو ہراساں کرتے ہیں، تو درآمد کنندگان مستقبل میں ایسے کسی بھی بحران کے وقت اپنا اہم کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہونگے۔ ثاقب فیاض مگوں نے مزید کہا کہ بروقت درآمد کی وجہ سے لوگوں کو پچھلے 6-5 ماہ میں گندم یا آٹے کی کمی کا سامنا نہیں کرنا پڑااورکافی درآمدات کی وجہ سے آٹے کی قیمت کم رہی؛ کیونکہ درآمد شدہ گندم کی قیمت تقریباً 65 روپے فی کلورہی؛ جبکہ مقامی گندم کی قیمت لگ بھگ 100 روپے فی کلو رہی ۔ اس کا مطلب ہے کہ صارفین کوتقریباً 125 ارب روپے کی بچت ہوئی اور مہنگائی میں کمی کا رجحان شروع ہوا۔
بریگیڈیئر افتخار اوپل، ایس آئی (ایم)، ریٹائرڈ
یکریٹری جنرل