FORGOT YOUR DETAILS?

ونڈ پاور پراجیکٹس سے 14.5 روپے فی یونٹ کی سستی بجلی کا نیشنل گرڈ کو آف ٹیک فوراً بڑھانا چاہئے عاطف اکرام شیخ، صدر ایف پی سی سی آئی

کراچی (31 مئی 2024): صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے ونڈ پاور کے موجودہ، آپریشنل اور سستے ترین 12 منصوبوں سے فوری اور مکمل طور پر بجلی حاصل کرنے کو ترجیح دینے پر زور دیا ہے؛کیونکہ،یہ ونڈ پاور پالنٹس صرف 14.5 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی پیدا کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ قابل تجدید توانائی کی پالیسی 2006 کہ جس کے مطابق ونڈ پاور میں مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاری ہوئی تھی اور ساتھ ہی ساتھ توانائی کی خریداری کے موجودہ پاور پرچیز دونوں کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ ایف پی سی سی آئی کے سنیئر نائب صدرثاقب فیاض مگوں نے کہا کہ حال ہی (PPAs (ایگریمنٹس میں کے الیکٹرک نے 2030 تک قابل تجدید توانائی کی پیداوار میں اپنا 30 فیصد حصہ حاصل کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔لہذا، حکام کو ان موجودہ سستے 12 ونڈ پاور منصوبوں سے بجلی کی مکمل ترسیل کے لیے ضروری اقدامات کرنے کے جھمپیر ٹو گرڈا سٹیشن سے کے الیکٹرک NTDC چاہئیں؛کیونکہ کے الیکٹرک نیٹ ورک کے لیے ٹرانسمیشن انفراسٹرکچر ٹرانسمیشن انفراسٹرکچر کے ما بین دستیاب ہے۔اس سے سستی بجلی کے ضیاع کو روکا جا سکے گا اور اتنی سستی KDA کے بجلی کے استعمال سے عام لوگوں کو فائدہ حاصل ہو سکے گا۔ نائب صدر ایف پی سی سی آئی اور اپٹما کے چیئرمین آصف انعام نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ موسم گرما کے شدید موسم میں عام عوام مسلسل لوڈ شیڈنگ سے دوچار ہیں؛ جس سے ان کی روزمرہ زندگی میں بے حد تکاللیف اور خلل پیدا ہو رہا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ حکومت ونڈ پاور پالنٹس پر جنریشن کٹ عائد کر رہی ہے جو کہ 14.5 روپے فی کلو واٹ آوور کی کم الگت میں بجلی پیدا کر رہے ہیں۔ اس طرز عمل نے توانائی کے شعبے میں نا اہلی اور بدانتظامی کے بارے میں خدشات کو جنم دیا ہے؛ خاص طور پر اس وقت کہ جب صاف اور سستی توانائی کے ذرائع کو کم استعمال کیا جا رہا ہو۔ اس طرح کے اقدامات قابل تجدید توانائی کی صالحیت کو نقصان پہنچا ئیں گے۔ آصف HVDC انعام نے مزید کہا کہ این ٹی ڈی سی جھمپیر سندھ میں ونڈ پاور پراجیکٹس سے پیدا ہونے والی سستی بجلی مٹیاری-الہور ٹرانسمیشن الئن لینے میں ناکام رہی ہے۔ جبکہ اس کے بجا ئے پنجاب کے لوڈ سینٹر کے لیے وہ پنجاب کے پاور پالنٹس سے زیادہ ٹیرف پر بجلی حاصل کر رہی ہے۔ اسی طرح صارفین کو ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کے طریقہ کار کے تحت زیادہ قیمتیں ادا کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ایف پی سی سی آئی کی سنیٹرل ا سٹینڈنگ کمیٹی برائے رینیوایبل انرجی کے کنوینر فواد کی (SIFC )جاوید نے بتایا کہ قابل تجدید توانائی پالنٹس سے سستی بجلی کم حاصل کیے جانااسپیشل انویسمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل کلین انرجی کی پالیسی کے بھی خالف ہے۔ فواد جاوید نے مزید کہا کہ متبادل توانائی کے پاور پروڈیوسرز قابل تجدید توانائی کے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ سب SIFC ،کی کوششوں کو سراہتے ہیں۔ تاہم SIFC منصوبوں کے لیے سرمایہ کاری کے لیے سے سستے 12 ونڈ پاور پروجیکٹس کو درپیش موجودہ زمینی حقائق کو دیکھے۔ جو اپنے طویل مدتی مالی استحکام اور پائیداری کثیرالجہتی ایجنسیوں اور بین ،DFIs کے لیے اہم چیلنجوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ فواد جاوید نے بتایا کہ ونڈ پراجیکٹس معروف االقوامی شراکت داروں کی جانب سے خاطر خواہ غیر ملکی سرمایہ کاری کے ذریعے قائم کیے گئے تھے جس میں قرض اور ایکویٹی فنانسنگ فراہم کرنا شامل تھا۔ پاکستان میں ان پراجیکٹ اسپانسرز کے لیے ورلڈ بینک کی انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن جیسے سرکردہ (ICD )اور اسالمک کارپوریشن فار ڈیویلپمنٹ (BII )حکومت برطانیہ کی برٹش انٹرنیشنل انویسٹمنٹ ،(IFC) ادارے شامل تھے۔ اس رجحان سے ملک کی معیشت اور توانائی کے شعبے کو فروغ مال اور روزگار کے مواقع پیدا ہوئے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ ان کٹوتیوں کے مسائل کو حل کرنے میں ناکامی پاکستان میں مستقبل میں قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کے لیے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے میں مشکالت پیدا کرے گی۔

 افتخار اوپل، ایس آئی (ایم)، ریٹائرڈ

یکریٹری جنرل

TOP