FORGOT YOUR DETAILS?

وفاق ایوانہائے تجارت وصنعت۔ پاکستان ایف پی سی سی آئی کی پاکستان کے الجسٹکس شعبے میں فوری اصالحات اور تجارتی مسابقت بڑھانے پر تجاویز عاطف اکرام شیخ، صدر ایف پی سی سی آئی

کراچی ( یکم اکتوبر 2025) صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے آگاہ کیا ہے کہ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے پالیسی ایڈوائزری بورڈ نے اپنی تازہ ترین پالیسی بریف جاری کر دی ہے؛ جس کا عنوان ہے: ''پاکستان کی الجسٹکس کارکردگی اور اس کے تجارتی مسابقت پر اثرات''۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ پاکستان کا الجسٹکس شعبہ؛ جو کہ معیشت کے 15.6 فیصد کا حصہ ہے، تجارت اور سرمایہ کاری میں ایک بنیادی رکاوٹ بن چکا ہے۔ صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے بتایا کہ اس کے برعکس ترقی یافتہ ممالک جیسے امریکہ، جاپان اور سنگاپور میں یہ شعبہ جی ڈی پی کا صرف 8 سے 9 فیصد ہے، جو پاکستان میں اخراجات کے زیادہ ہونے، ناقص کارکردگی اور چند شعبوں پر حد سے زیادہ انحصار کی نشاندہی کرتا ہے۔رپورٹ کے مطابق، پاکستان کی الجسٹکس کارکردگی عالمی سطح پر بھی تنزلی کا شکار ہے۔ ورلڈ بینک کے الجسٹکس پرفارمنس میں پاکستان کی درجہ بندی 2016 میں 68 سے گر کر 2018 میں 122 پر آ گئی، جو خطے میں (LPI) انڈیکس سب سے بڑی گراوٹوں میں سے ایک ہے۔ صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے کہا کہ سب سے رپورٹ سے مکمل طور پر خارج کر دیا گیا ہے؛ جس کی وجہ LPI تشویشناک بات یہ ہے کہ پاکستان کو 2023 کی ناکافی ڈیٹا اور اسٹیک ہولڈرز سے ناقص روابط ہیں۔ اس کے برعکس بھارت، ویتنام اور بنگلہ دیش نے اپنی الجسٹکس میں بہتری ال کر عالمی ویلیو چینز میں مضبوط جگہ بنا لی ہے۔ ایف پی سی سی آئی کی ریسرچ ا سٹڈی کے مطابق پاکستان کا 94 فیصد کارگو سڑک کے ذریعے منتقل ہوتا ہے؛ جبکہ صرف 6 فیصد ریل کے ذریعے ہوتا ہے۔ حاالنکہ ریل نہ صرف سستا بلکہ محفوظ اور ماحول دوست ذریعہ بھی ہے۔صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے زور دیا کہ پاکستان ریلوے میں آپریشنل انجنز کی تعداد 2011 میں 528 سے کم ہو کر 2025 میں صرف 449 رہ گئی ہے؛ جب کہ ریلوے فریٹ والیوم بھی 20-2019 کے 7.4 ملین ٹن سے کم ہو کر 25-2024 میں 5.8 ملین ٹن ہو گیا ہے۔بندرگاہوں کی ناقص کارکردگی بھی مسائل کو بڑھا رہی ہے۔ایف پی سی سی آئی کے پالیسی ایڈوائزری بورڈ کے مطابق کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم، جو پاکستان کی 95 فیصد بیرونی تجارت کو سنبھالتے ہیں، سے 5.5 (dwell time) اپنی کل صالحیت کے صرف ایک تہائی پر کام کر رہے ہیں۔ وہاں پر کنٹینرز کا اوسط وقت 6.5 دن ہے، جب کہ بھارت میں یہ 2.6 دن، بنگلہ دیش میں 1.6 دن اور ویتنام میں 4 دن ہے۔ گوادر پورٹ، جو کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت ایک اسٹریٹجک بندرگاہ ہے، قومی تجارت میں صرف 0.5 فیصد کا حصہ رکھتی ہے۔ کیونکہ وہاں کے زمینی رابطے اور سپالئی چین انضمام ناقص ہیں۔ صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے مزید کہا کہ رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں پھلوں اور سبزیوں کا 30 سے 40 فیصد حصہ بعد از کاشت ضائع ہو جاتا ہے، جس کی وجہ ناکافی گودام اور کولڈ چین سہولیات ہیں۔ یہ نہ صرف خوراک کی سکیورٹی کو متاثر کرتا ہے بلکہ زرعی برآمدات کو بھی محدود کرتا ہے۔ اسی طرح، ڈائمینشنل اسٹون جیسی صنعتیں، جن میں 1 سے 1.5 ارب ڈالر کی برآمدی صالحیت ہے، مخصوص فریٹ کاریڈورز اور جدید مائننگ کی سہولیات کی کمی کی وجہ سے نے ان مسائل کے حل کے لیے ایک جامع اصالحاتی روڈمیپ پیش کیا ہے، جس میں FPCCIترقی نہیں کر پاتیں۔ شامل ہیں:ٹرکنگ سیکٹر کو صنعت کا درجہ دینا تاکہ بیڑے کو جدید بنایا جا سکے۔نیشنل الجسٹکس اتھارٹی کا قیام تاکہ بکھرے ہوئے اداروں میں ہم آہنگی الئی جا سکے۔بندرگاہوں اور پیداواری مراکز کے قریب کولڈ اسٹوریج اور گوداموں کی تعداد بڑھانا۔گوادر کو عالقائی ٹرانس شپمنٹ حب بنانا۔ڈرائیورز کی تربیت کے لیے جدید ادارے قائم کرنا۔ڈیجیٹل فریٹ میچنگ پلیٹ فارمز متعارف کروانا۔پاکستان ریلوے کو جدید بنانا، جس میں نئے انجن، سگنلنگ سسٹمز اور ڈیجیٹل کارگو مانیٹرنگ شامل ہیں۔فیڈریشن نے زور دیا ہے کہ کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم کو ریلوے سے منسلک کرتے ہوئے مخصوص فریٹ کاریڈورز بنائے جائیں تاکہ اندرون ملک جانے واال سارا مال ریلوے کے ذریعے بھی منتقل ہو سکے۔ اس سے نہ صرف ٹرانسپورٹ الگت میں کمی آئے گی بلکہ کراچی شہر میں ٹریفک کا نے انتباہ کیا کہ: ''موثر الجسٹکس تجارتی مسابقت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔'' اگر فوری اور FPCCIدباؤ بھی کم ہو گا۔ منظم اصالحات نہ کی گئیں تو پاکستان اپنے عالقائی حریفوں سے پیچھے رہ جائے گا۔ فیڈریشن نے واضح کیا کہ الجسٹکس کے شعبے میں اصالحات اور ریلوے کی جدید کاری، معیشت کو 411 ارب ڈالر سے 1 ٹریلین ڈالر تک لے جانے کے لیے ناگزیر ہیں، تاکہ سپالئی چین کی الگت میں کمی اور مکمل تجارتی صالحیت کا حصول ممکن ہو سکے۔

TOP