ود ہولڈنگ ٹیکس کا حصہ سیلز ٹیکس موڈ کے ڈائر یکٹ ٹیکسز میں 70 فیصد تک پہنچ گیا ایف پی سی سی آئی ود ہولڈنگ ٹیکس میں کسی بھی مزید اضافے کی مخالفت کرتی ہے عاطف اکرام شیخ، صدر ایف پی سی سی آئی
کراچی (03 ستمبر2024): صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے واضح طور پر کہا ہے کہ ایف پی سی سی آئی پہلے سے ٹیکس شدہ طبقات یا سیکٹر زپر ٹیکس میں کسی بھی اضافے کی شدیدمخالفت کرتی ہے؛چا ہے وہ کسی بھی قسم کی ایڈوانس ٹیکس وصولی ہو؛کو ئی بھی ود ہولڈنگ ٹیکس ہو یا کسی بھی طر ح کا زبر دستی سیلز ٹیکس موڈ میں اضافہ ہو۔انہو ں نے مزید کہا کہ کاروباری، صنعتی اور تاجر برادری پر پہلے ہی کافی غیر منصفانہ ٹیکس لگے ہوئے ہیا ہیں اورہم اب ایک ایسے مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ جہاں ہم مزید کسی اضافی بوجھ کو برداشت نہیں کر سکتے۔ صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے فیڈریشن کے اس موقف کو دہرایا کہ ہمیں پاکستان میں ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے؛ ٹیکس جمع کرانے کے نظام کو آسان بنانا ہے؛ ایسی ٹیکسیشن اصالحات کرنی ہیں کہ جو معاشی طور پر معنی خیز ہوں اور ٹیکسیشن مشینری میں ہراساں کرنے یا بدانتظامی کا خاتمہ کرنا ہوگا۔بجا ئے اس کے کہ اس قسم کے متضاد، رجعت پسند انہ اور اقتصادی سکڑاؤ کا با عث بننے والے ٹیکس اقدامات کیے جا ئیں۔ صدر ایف پی سی سی آئی عا طف اکرام شیخ نے بتایا کہ مالی سال2024 کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں جمع ہونے والے تمام براہ راست ٹیکس جو کہ سیلز ٹیکس موڈ میں جمع ہوتے ہیں ان میں ودہولڈنگ ٹیکس کا تنا سب 70 فیصد تک پہنچ گیا ہے اور یہ اعداد و شمار انتہا ئی تشویشناک ہیں۔ اس کے عالوہ اب یہ اطالعات بھی آرہی ہیں کہ حکومت آئی ایم ایف کو خوش کرنے اور ٹیکس وصولی میں صحت مند اضافہ دکھانے کے لیے ملک میں ایک بار پھر بڑھا سکتی ہے۔ یہ کسی بھی پیمانے پر کوئی اچھی کارکردگی ظاہر نہیں کرے گی؛بلکہ،یہ پیش رفت دکھانے کی WHT سے ایک نا کام کوشش ثابت ہو گی۔ صدر ایف پی سی سی آئی نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ود ہولڈنگ ٹیکس میں کسی بھی اضافے کو الگو کرنے کے لیے حکومت کو سپلیمنٹری فنانس بل 2025 یا ایک منی بجٹ النا ہوگا۔ انہو ں نے واضح کیا کہ کوئی بھی منی بجٹ سرمایہ کاروں کے اعتماد کو کم کرتا ہے؛ سرمائے کی پرواز کا سبب بنتا ہے؛ صنعتوں کی بندش اور ایکسپورٹرز کے WHT تجارتی شراکت داروں کے ساتھ عدم اعتماد کو فروغ دیتا ہے۔ صدر ایف پی سی سی آئی عا طف اکرام شیخ نے زور دیاکہ سیلز ٹیکس وصولی کے موڈ میں جمع کیا جاتا ہے اور یہ کسی بھی طرح سے کسی قسم کی اقتصادی ترقی کا عکاس نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی ملک میں تجارتی سرگرمیوں یا کھپت میں کسی مثبت رجحان کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایف بی آر کو پہلے ہی مالی سال 2025کے پہلے 2 مہینوں میں 98ارب روپے کے شارٹ فال کا سامنا ہے اور اب یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ اس میں مالی سال 2025 کے تیسرے مہینے میں مزید 100 ارب روپے تک کی کمی آئے گی۔ مزید برآں،اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملک میں معاشی سر گر میوں اور ایکسپورٹس میں کو ئی ترقی نہیں ہو پاررہی ہے۔ عاطف اکرام شیخ نے کہا کہ زیادہ ٹیکس پیدا کرنے کا واحد قابل عمل حل یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کے انٹرسٹ ریٹ میں فو ری طور پر بڑی کمی کی جائے؛ ایکسپورٹ ما رکیٹس میں عالقائی حریفوں کے مقابلے میں بجلی اور گیس کے نرخوں کو معقول بنایا جا ئے؛میکرو اکنامک پالیسیوں میں تسلسل ال یا جائے اور ٹیکس کی بنیاد کو غیر ٹیکس شدہ طبقات تک وسیع کرکے معاشی سرگرمیوں کے لیے ساز گار ماحول پیدا کیا جائے۔
بریگیڈیئر افتخار اوپل، ایس آئی (ایم)، ریٹائرڈ
سیکرٹری جنرل