FORGOT YOUR DETAILS?

ظالمانہ ٹیکس اور مہنگی بجلی کے مسائل چھوٹے تاجروں اور چھوٹی صنعتوں کو بھیجے گئے ٹیکس نوٹسز کی مذمت کرتے ہیں آصف سخی، نائب صدر، ایف پی سی سی آئی

کراچی(12 اگست 2024): نائب صدر ، ایف پی سی سی آئی، آصف سخی نے کہا ہے کہ فیڈریشن چھوٹے تاجروں اور چھوٹی صنعتوں کو ماہانہ 60,000 روپے کے بھیجے گئے ٹیکس نوٹسز کی مذمت کرتی ہے۔انہو ں نے واضح کیا کہ کاروباری، صنعتی کی منتظر (TDS)اور تاجر برادری چھوٹے تاجروں کو ٹیکس کے نظام میں رجسٹریشن کروانے کے لیے تاجر دوست اسکیم تھی؛ تا کہ، وہ ٹیکس نظام میں شامل ہو کرمراعات حاصل کر سکیں،نا کہ ان کو اس کے برعکس نا جائز ٹیکس نو ٹس بھیجے جا ئیں۔یہ بات قابل غور ہے کہ کراچی کے چھوٹے تاجروں، چھوٹی صنعتوں اور شاپنگ سینٹرز کی تمام اہم ایسو سی ایشنز ایف پی (IPPs)سی سی آئی کے زیراہتمام فیڈریشن ہاؤس میں جمع ہوئیں تاکہ ان ظالمانہ ٹیکس نوٹسز اور انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز کے کیپسیٹی چارجز کی وجہ سے بجلی کے ناقابل برداشت نرخوں کے مسائل کو اجاگر کیا جا سکے۔نائب صدر ایف پی سی سی آئی آصف سخی نے مطالبہ کیا کہ غیر ضروری ٹیکس نوٹس چھوٹے تاجروں اور چھوٹے صنعتکاروں میں بے چینی اور ہراسانی کا باعث بن رہے ہیں اور قومی معیشت کے مفاد میں ان نو ٹسز کو واپس لیا جائے۔مزید برآں، چھوٹے تاجر ٹیکس نظام میں آنا چاہتے ہیں، لیکن وہ غیر منصفانہ اور غیر حقیقت پسندانہ ٹیکسوں سے اتفاق نہیں کر سکتے۔ آصف سخی نے کہا کہ وفاقی کے ساتھ تمام معاہدوں پر دوبارہ گفت و شنید کرنی چاہیے اور قومی گرڈ کے لیے (IPPs)حکومت کو انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز سستے اور کم الگت کے ذرائع سے بجلی حاصل کرنی چایئے اوران میں غیر ضروری شرائط اور کیپیسٹی چارجز نہیں ہونے چائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سب سے بڑھ کر یہ کہ 52 فیصد آئی پی پیز حکومت کی ملکیت ہیں اور ان کے پاور پرچیز کو مختصر مدت کے اندر ہی دوبارہ طے کیا جا سکتا ہے۔نائب صدر ایف پی سی سی آئی آصف سخی نے (PPAs)ایگریمنٹس بتایا کہ بجلی کے بے تحاشا اور ناقابل برداشت نرخوں کی وجہ سے بڑے پیمانے پر صنعتی بندش اور مالزمتوں میں بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے۔ 40,000 میگاواٹ سے زیادہ کی پیداواری صالحیت موجود ہے جب کہ سب سے زیادہ طلب اور ترسیل کی صالحیت محض 25,000 میگاواٹ ہے؛جس کے نتیجے میں پیداواری صالحیت کا بہت کم استعمال ہوتا ہے۔ اب تک 40 کمپنیوں کو 2 ٹریلین رو پے کی کیپیسٹی پیمنٹ کی ادائیگیاں قومی معیشت کو مفلوج کر رہی ہیں اور آئی پی پیز کیپیسٹی چارجز کے نام پر ادائیگیاں وصول کیئے جا رہے ہیں؛بجز اس کے کہ وہ نا بجلی پیدا کر رہے ہیں ہوں اور نا ہی سپالئی دے رہے ہوں۔انہو ں نے بتایا کہ کیپیسٹی چارجز بجلی کی کل الگت کا دو تہائی بنتے ہیں؛ جبکہ ایندھن کی قیمت صرف ایک تہائی پر مشتمل ہے۔ ایف پی سی سی آئی کا کہنا ہے کہ ریسرچ سے پتہ چلتا ہے کہ آئی پی پیز ڈالر کے اعتبار سے 73 فیصد سے زیادہ منافع حاصل کر رہے ہیں؛ جو کہ بین االقوامی معیارات اور طریقوں کے مقابلے میں غیر معمولی طور پر زیادہ اور نا جائز ہے۔ پاکستان کا انرجی سیکٹر 1994 کی پاور پالیسی کے بعد سے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کے مسائل میں پھنسا ہوا ہے۔ ان معاہدوں کی وجہ سے گردشی قرضہ 2.8 ٹریلین روپے کے قریب ہو گیا ہے۔سابق نائب صدر اور صدر ایف پی سی سی آئی کے مشیر برائے ایف بی آر امور خرم اعجاز نے وضاحت کی کہ امریکی ڈالر کے ساتھ انڈیکسڈ گارنٹی کا مطلب ہے کہ پاکستانی روپے کی قدر میں کمی آئی پی پیز کے لیے منافع میں اضافہ کرتی ہے؛ جس سے حکومت اور عوام پر مالی بوجھ بڑھتا ہے۔ جوکہ عالمی اصولوں اور بیسٹ پر یکٹسسز کے منافی ہے۔

بریگیڈیئر افتخار اوپل، ایس آئی (ایم)، ریٹائرڈ
سیکریٹری جنرل

TOP