سیاسی جماعتوں کو اپنے منشور کے لیے معاشی پالیسیاں ترتیب دینے سے پہلے ایف پی سی سی آئی سے مشاورت کرنی چاہیے
کراچی(27 جنوری 2024) : قائمقام صدر ایف پی سی سی آئی ثاقب فیاض مگوں نے اس بات کو سراہا ہے کہ جماعت اسالمی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے اپنا معاشی منشور پیش کرنے کے لیے ایپکس باڈی کے ہیڈ آفس کا دورہ کیا ہے
تاکہ وہ کاروباری، صنعتی اور تاجر برادری کو اپنے منشور میں شامل کاروباری اور انفرا اسٹرکچر کی ترقی کے منصوبوں سے آگاہ کر سکیں۔ ثاقب فیاض مگوں نے تمام سیاسی جماعتوں سے درخواست کی کہ وہ اپنا معاشی منشور عملی، تفصیلی اور سوچے سمجھے انداز میں ایف پی سی سی آئی کے سامنے پیش کریں؛کیونکہ تاجر برادری بیان بازی کی بجائے مسائل کے حل کو سننا چاہتی ہے۔انہو ں نے مطالبہ کیا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے منشور کے لیے معاشی پالیسیاں ترتیب دینے سے پہلے ایف پی سی سی آئی سے مشاورت کرنی چاہیے؛ کیونکہ بزنس کمیونٹی ہی وہ لوگ ہیں کہ جو سیاسی جماعتوں کو گراس روٹ لیول پر درپیش کاروباری مسائل سے آگاہ کر سکتے ہیں۔ قائم مقام صدر ایف پی سی سی آئی ثاقب فیاض مگوں نے کہا کہ ہم یہ سمجھناچاہتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں کس طرح کاروبار کرنے کی الگت کو کم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں؛کاروبار کرنے میں آسانی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو کیسے دور کیا جائے گا؛ اسکل ڈویلپمنٹ کے فرق کو کیسے ُپر کیا جائے گا؛ صحت اور تعلیم کے لیے کتنا بجٹ رکھا جائے گا؛سرکاری اداروں کے نقصانات کو کیسے کم کیا جائے گا
4.000
ارب روپے کے ٹیکس گیپ کو کیسے پورا کیا جائے گا
؛ ٹیکس کی بنیاد کو کس طرح وسیع کیا جائے گا اور آنے والی حکومت کے ذریعہ کے پلیٹ فارم کا کس طرح مکمل طور پر فائدہ اٹھایا جائے گا۔ قائمقام صدر ایف پی سی سی آئی SIFCثاقب فیاض مگوں نے
IPPsکے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کرنا؛ جیسا کہ جماعت اسالمی کے منشور میں
تسلیم کیا کہ انڈیپنڈینٹ پاور پروڈیوسرز ذکر کیا گیا ہے؛ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ تاہم، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ قومی یا بین االقوامی فورم پر کسی قانونی چارہ جوئی سے بچنے کے لیے اسے مشاورتی عمل کے ذریعے کیا جانا چاہیے۔ توانائی کے شعبے کا گردشی قرضہ اب ایک تا ریخی اور خطرناک سطح یعنی 5.731 کھرب روپے تک پہنچ گیا ہے۔
انہوں نے تجویز پیش کی کہ نئی حکومت کو ایس ایم ایز کے لیے کمرشل بینکوں سے فنانس تک رسائی کو ممکن بنانے کے لیے اسٹیٹ بینک کی کلیدی پالیسی کی شرح میں کمی جیسے بنیادی اور میکرو اکنامک مسائل کو ترجیح دینی چاہیے۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں کو منطقی بنا کر پاکستان کو عالقائی طور پر مسابقتی بنانے اور اقتصادی، مالیاتی، صنعتی، تجارتی
زرعی،انفرا اسٹرکچرو ڈویلپمنٹ، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ایس ایم ایز اور ٹیکسیشن پالیسیوں میں مشاورت، تسلسل اور ہم آہنگی کو یقینی بنانے کے ذریعے کاروبار کرنے کی الگت میں کمی ضروری ہے۔
امیر جماعت اسالمی سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ ان کی جماعت غریبوں کو 300 یونٹ تک مفت بجلی فراہم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے
پاکستان میں 7.5 کروڑ اوپری سطح کے لوگوں سے زکٰوۃ اکٹھی کر کے اسے ملک کے کم آمدنی والے 7.5 کروڑ لوگوں میں تقسیم کیا جائے گا۔امیر جماعت اسالمی سینیٹر سراج الحق نے مزید کہا کہ دفاعی اخراجات پر پارلیمنٹ میں بحث اور مشاورت کی جائیگی۔ انہو ں نے وضاحت کی کہ جماعت اسالمی کے منشور کے مطابق ملک کا مالیاتی نظام سود سے پاک اور زکٰوۃ و عشر کی وصولی پر مبنی ہوگا۔ حکومتی اخراجات کی ترجیحات میں سب سے پہلے فالحی اخراجات ہوں گے
پھر ترقیاتی اخراجات اور انتظامی اخراجات تیسرے نمبر پر ہوں۔بجلی کی بڑھتی ہو ئی قیمتوں پر انہو نے کہا کہ پاکستان کے پاس 25کھرب ڈالر کے کوئلے کے ذخائر موجود ہیں جو کہ تین سو سال کے لیے کافی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہم اپنے قومی وسائل کا استعمال نہیں کر رہے ہیں۔ بجلی کی چوری اور نقصانات پانچ سو ارب روپے ساالنہ تک پہنچ گئے ہیں
بکہ ہمارے دوست ملک کے (IPPs (چین میں ایسے کو ئی نقصانات نہیں ہونے دیے جاتے۔ سراج الحق نے واضح کیا کہ انڈیپنڈینٹ پاور پروڈیوسرز مالکان میں سے ستر فیصد پاکستانی ہیں اور ان سے قومی مفاد میں کنٹریکٹس پر نظر ثانی ممکن ہے۔سراج الحق نے مز ید کہا کہ ملک میں دو کروڑ اسی الکھ بچہ ا سکول سے باہر ہے
نوے الکھ لوگ نشے کے عادی ہو چکے ہیں؛ ہماری فی ایکڑ زرعی پیداوار دو سرے ملکوں کے مقابلے میں ایک تہائی ہے؛معاشی تر قی کی شرح صرف صفر اشاریہ تین فیصد ہے۔جماعت اسالمی کے پاس معاشیا ت سمیت تمام شعبہ جات میں کل بار ہ سو پی ایچ ڈی موجود ہیں۔
بریگیڈیئر افتخار اوپل، ایس آئی (ایم) ، ریٹائرڈ
سیکرٹری جنرل