FORGOT YOUR DETAILS?

تجارت و صنعت کو زندہ رکھنے کے لیے بجلی و گیس کی قیمتوں کو فوری طور پر کم کیا جائے ایس ایم ایز کی تعریف 25 کروڑ سے بڑھا کر 80 کروڑ کی جائے ثاقب فیاض مگوں، قائم مقام صدر، ایف پی سی سی آئی

کراچی(25 فروری 2024): قائم مقام صدر، ایف پی سی سی آئی،ثاقب فیاض مگوں نے پاکستان کی پوری کاروباری، صنعتی اور تاجر برادری کے اجتماعی خدشات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا ہے کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں کو زمینی حقائق کے مطابق فوری طور پر اس طرح منطقی بنایا جانا چاہیے کہ کاروباری اداروں کو منافع بخش اور پائیدار طریقے سے چالنا ممکن ہو سکے۔واضح رہے کہ وہ رحیم یار خان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں تاریخی آل پاکستان چیمبرز کانفرنس میں بطور مہمان خصوصی اپنا کلیدی بیانیہ دے رہے تھے؛ جو کہ پاکستان کی تاجر برادری کا اعلی ترین ایونٹ ہے۔.اس اعل ٰی سطحی کانفرنس نے معاشی پالیسی سازی میں تسلسل، عملیت پسندی، ترقی پسندی اور مشاورتی نقطہ نظر کو یقینی بنانے کے لیے ایک غیر سیاسی، قانونی طور پر پابند، شعبہ جاتی اور طویل مدتی چارٹر آف اکانومی کا مطالبہ کیا۔ ثاقب فیاض مگوں، قائم مقام صدر ایف پی سی سی آئی نے اس بات کا اعادہ کیا کہ صرف دو ماہ میں مسلسل دوسری بار حکومت نے صنعتوں کے لیے گیس کے ٹیرف میں اضافہ کیا ہے اور یہ اقدام واضح طور پر کاروبار مخالف ہے۔ بنیادی طور پر آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنا اس کا مقصد ہے۔ اس کے نتیجے میں آنے والے مہینوں میں افراط زر میں مزید اضافہ متوقع ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو توانائی کی قیمتوں میں بال روک ٹوک اضافے کی اپنی پالیسی پر فوری طور پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ خاص طور پر کیپٹیو گیس کی قیمتوں میں حالیہ 223 فیصد اضافہ جنوری 2023 سے اب تک گیس کو 2,750 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو تک پہنچا چکا ہے۔ یہ ناقابل برداشت اضافہ پاکستان کی صنعتوں کو خطرے میں ڈال چکا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فوڈ اتھارٹی کو وفاقی ہونا چاہیے تاکہ بین الصوبائی خوراک کی تجارت اور ضوابط میں تضادات اور بے ضابطگیوں سے بچا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شپنگ الئنز کو ایک مضبوط ریگولیٹری باڈی کے تحت آنا چاہیے؛ تاکہ ان کے ہاتھوں تاجروں کا استحصال ختم ہو۔ایف پی سی سی آئی کے قائم مقام صدر نے تجویز پیش کی کہ پاکستان کی توانائی سے متعلق افراط زر کی پریشانیوں اور پانی کی کمی سے نمٹنے کے لیے نئی حکومت کو ڈیم کے جاری منصوبوں کی تعمیر میں تیزی النی چاہیے اور ملک کے طول و عرض میں نئے، چھوٹے ڈیموں کا بھی اعالن بھی کیا جائے۔ اس سے ملک کی توانائی اور خوراک کی سیکیورٹی کو بیک وقت بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ ثاقب فیاض مگون نے وضاحت کی کہ مہنگائی کے دباؤ نے گھریلو اور کاروبار دونوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ سود کی شرح میں اضافے جیسے روایتی طریقے نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتے ہیں۔ حکومت کو افراط زر کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے غیر روایتی مانیٹری پالیسی ٹولز کو تالش کرنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کوئی بھی کاروبار 22 فیصد کلیدی پالیسی ریٹ پر قرض نہیں لے سکتا اور واپس نہیں کر سکتا۔ انہون نے روشنی ڈالی کہ سرکاری ملکیت میں چلنے والے اداروں نے صرف گزشتہ 2 سالوں میں 1,400 ارب روپے کا خسارہ کیا ہے اور ان نقصانات سے چھٹکارا پانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ پوری خلوص اور تندہی کے ساتھ ان کی نجکاری کی جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نجکاری نئی حکومت کی اقتصادی ٹیم کی اولین ترجیح ہونی چاہیے اور وقت ضائع نہیں کیا جانا چاہیے۔ عبدالرؤف مختار نے مطالبہ کیا کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں یعنی ایس ایم ایز کی تعریف میں حد کو پاکستان میں موجودہ 25 کروڑ سے بڑھا کر 80 کروڑ کیا جائے۔ تا کہ موجودہ حاالت میں مالزمتیں پیدا کرنا اور کاروبار کرنا ممکن ہو سکے؛ جہاں روپے کی قدر میں زبردست گراوٹ آئی ہے اور عملی طور پر چھوٹے کاروباروں کا منظرنامہ تبدیل ہو چکا ہے۔ رحیم یار خان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر محمد اقبال نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کے طرز عمل پر تنقید کی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ااس کی زیادتیوں کو کنٹرول کرے؛ کیونکہ پاکستان جیسے 245 ملین آبادی والے ملک کے لیے دواسازی ایک انتہائی اہم صنعت ہے اور اس کی مقامی طور پر تیار کی جانے والی ادویات کی مانگ ہے۔ ذکی اعجاز، نائب صدرایف پی سی سی آئی، نے کہا کہ انرجی مکس میں دنیا بھر میں ہمالیائی تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ کلین اور گرین متبادل توانائی کے ذرائع اس سے کہیں جلد دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے کہ جس کا ہم تصور کر سکتے ہیں۔ متبادل ذرائع نہ صرف سستے ہیں؛ لیکن وہ زیادہ پائیدار اور وافر بھی ہیں اور خوش قسمتی سے، پاکستان اس سلسلے میں وسائل سے ماال مال ممالک میں سے ایک ہے۔

بریگیڈیئر افتخار اوپل، ایس آئی (ایم) ، ریٹائرڈ

سیکرٹری جنرل

TOP