FORGOT YOUR DETAILS?

ایف پی سی سی آئی پالیسی ریٹ میں معمولی کمی کو مسترد کرتی ہے عاطف اکرام شیخ، صدر ایف پی سی سی آئی

کراچی (10 جون 2024): صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے کہا ہے کہ آج جس طرح پالیسی ریٹ میں کمی کا اعالن کیا گیا ہے وہ بہت کم ہے؛ کیونکہ کاروباری، صنعتی اور تاجر برادری کو پالیسی ریٹ میں اس سے زیادہ اور نمایاں کمی کی توقع تھی۔ واضح رہے کہ کور انفیلیشن مئی 2024 میں کم ہو کر 11.8 فیصد پر آگئی ہے؛ جو کہ 30 ماہ کے عرصے میں سب سے کم افراط زرہے۔ایف پی سی سی آئی کے صدرعاطف اکرام شیخ نے واضح کیا کہ شرح سود کو 15 فیصد تک الیا جانا چاہیے؛ تاکہ پاکستانی برآمد کنندگان سرمائے کی الگت میں خاطر خواہ کمی کی وجہ سے عالقائی اور بین االقوامی برآمدی منڈیوں میں مقابلہ کر نے کے قابل ہوسکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس اقدام کے ساتھ ساتھ صنعتوں کے لیے بجلی کے نرخوں کو معقول بنانے کے حکومتی وعدے کی تکمیل بھی ہونی چاہیے۔ عاطف اکرام شیخ نے کہا کہ کنزیومر پرائسز میں واضح طور پر کمی کا رجحان ظاہر ہو رہا ہے؛کیونکہ مئی 2024 میں ان میں 3.2 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے؛ جبکہ پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کے مطابق اپریل 2024 میں 0.4 فیصد کی کمی ہوئی تھی۔ انہوں نے واضح کیا کہ اب کاروباری برادری کو پالیسی (PBS) ریٹ میں مؤثر اور مناسب طریقے سے کمی کے ذریعے کمرشل بینکوں سے فنانس تک رسائی میں سہولت فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے بطور صدر ایپکس باڈی پاکستان کی پوری کاروباری، صنعتی اور تاجر برادری کی جانب سے اقتصادی پالیسی سازی میں شفافیت اور مشاورت النے میں حکومت کی سنجیدگی پر سوال اٹھایا ہے اور اپنے اس موقف کا اعادہ کیا ہے کہ حکومت کو کاروباری اداروں کو کچھ بنیادی سواالت کے جوابات دینے چاہییں تاکہ وہ نئے آئی ایم ایف پروگرام کو حاصل کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں (i (:اپنے اگلے سال کی منصوبہ بندی کر سکیں پروگرام پر دستخط کے بعد IMF معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے (ii)اور ان سے کاروبار کرنے کی الگت پر کیا اثر پڑے گا کیا اقدامات کیے جائیں گے اور حکومت ان اقدامات پر کاروباری برادری کو کب اور کیسے اعتماد میں لینے کا ارادہ رکھتی ہے؟صدرایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے تجویز پیش کی ہے کہ قیمتوں میں استحکام کو فروغ دینے کے لیے ایف پی پی سی آئی اس بات پر زور دیتا ہے کہ اسٹیٹ بینک کو مہنگائی کی شرح کوڈیمانڈ اور سپالئی کی بنیاد پر واضح انداز میں تفریق کو (NFNE)کرنا چاہیے اوریہ سفارش کی جاتی ہے کہ اسٹیٹ بینک بنیادی افراط زر کو ہدف بنائے؛ لہذا،نان فوڈ اور نان انرجی آپریشنل رہنمائی کے سلسلے میں افراط زر سے منہا کیا جانا چاہیے۔ قیمتوں میں ہیرا پھیری اور ذخیرہ اندوزی کو کنٹرول کرنے کے لیے متعلقہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے محکموں کے ساتھ رابطے میں رہنے کی ضرورت ہے۔ایک فعال اور موثر مسابقتی کمیشن آف پاکستان اور پرائس کنٹرول کے موثر طریقہ کار کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ایف پی سی سی آئی کے سنیئر ثاقب فیاض مگوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کو فوری طور پر عام افراط زر کی بجائے بنیادی افراط زر پر توجہ دینی چاہیے؛ کیونکہ بنیادی افراط زر انتہائی غیر مستحکم اجزاء کو خارج کر دیتا ہے۔ حکومت کو ذخیرہ اندوزی اور بدعنوانی کے خالف موثر کارروائیوں کے ذریعے قیمتوں پر قابو پانے کے اقدامات کو یقینی بنانا چاہیے۔ثاقب فیاض مگوں نے وضاحت کی کہ 2022 اور 2023 میں 6 سہ ماہیوں کے دوران 9.75 فیصد سے 22 فیصد تک پالیسی کی شرح میں اضافہ کیا گیا؛لیکن اس بڑے اضافے کے باوجود، عام افراط زر مسلسل بلند ہی رہا اور پالیسی ریٹ کا کوئی اثر نہیں ہوا۔سنیئرنائب صدر ایف پی سی سی کی کامیاب تکمیل کے بعد اور (SBA-IMF) آئی ثاقب فیاض مگوں نے اس بات پر زور دیا کہ آئی ایم ایف اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ 22 فیصد پالیسی ریٹ رکھنے کے باوجودپاکستان برآمدات میں کمی اور معاشی عدم استحکام کے مسائل سے دوچار ہے۔ یہ رجحان اس حقیقت کو اچھی طرح سے ثابت کرتا ہے کہ حکومت کو معاشی اتار چڑھاؤ پر قابو پانے کے لیے دیگر پالیسی ٹولز استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔

بریگیڈیئر افتخار اوپل، ایس آئی (ایم)، ریٹائرڈ
سیکریٹری جنرل

TOP