ایف پی سی سی آئی نے ٹیکس حکام کو دیے گئے غیر ضروری اختیارات کو مسترد کر دیا عاطف اکرام شیخ،صدیف پی سی سی آئی
کراچی 19جون 2025 صدر ایف پی سی سی آئی،عاطف اکرام شیخ نے مطلع کیا ہے کہ ایف پی سی سی آئی وفاقی بجٹ 26-2025 میں ٹیکس حکام کو دیے گئے حد سے زیادہ، غیر ضروری اور ہراساں کرنے والے اختیارات کو مسترد کرتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم ٹیکس آفیسرز کو دیئے گئے اس اختیار کو بھی مسترد کرتے ہیں کہ جو انہیں بزنس بینک اکاؤنٹس سے کاروباری افراد کی رقم نکلوانے کا اہل بناتا ہے اور بغیر نوٹس کے کاروباری اداروں پر چھاپوں کی بھی سخت مذمت کرتے ہیں۔ صدر ایف پی سی سی آئی ٍے؛ اس سے پہلے کہ وفاقی بجٹ منظور کیا جائے؛ تاکہ عاطف اکرام شیخ نے مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت ان سخت اقدامات کو واپس ل تاجر برادری کا اعتماد بحال ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس وصولی کا ہدف صرف اسی صورت میں حاصل کیا جا سکتا ہے کہ جب صنعتکاروں اور برآمد کنندگان کو ایک جامع مشاورتی عمل کے ذریعے آن بورڈ لیا جائے۔ تاہم، انہوں نے اپنے افسوس کا اظہار کیا کہ یہ بجٹ ان عملی اقدامات سے دور ہے کہ جو کاروباری برادری کو برآمدات میں درکار ترقی کے حصول کی بابت وزیر اعظم پاکستان کے وژن کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ضروری ہیں۔ صدرایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے واضح کیا کہ یہ عالمی سطح پر ایک قائم شدہ حقیقت اور عمل ہے کہ ٹیکس جمع کرنے والے افسر کو ٹیکس دہندگان کے ساتھ جتنی زیادہ مداخلت یا بات چیت کرنے کی اجازت دی جائے گی وہ باہم انسانی روابط اور میل جول کے بڑھتے ہوئے کردار کی وجہ سے انصاف، شفافیت اور غیر جانبداری کے اصولوں کو نقصان پہنچائے گی۔اس سلسلے میں، انسانی فیصلے پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔ سنیئر نائب صدر ایف پی سی سی آئی ثاقب فیاض مگوں نے مطالبہ کیا کہ ٹیکس کی پالیسیوں میں واضح پن، یقینی اندازاور مستقل مزاجی النے کے لیے برآمد کنندگان کے لیے فکسڈ کو اس کی اصل شکل اور ہیئت میں طویل مدت کے لیے بحال کیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم صرف اسی FTR ٹیکس ریجیم صورت فارن ڈائریکٹ انوسیمنٹ اور ملکی پرائیویٹ سرمایہ کاری کو راغب کر سکتے ہیں کہ اگر ہم بطور ملک کاروباری طور پر اپنی EFS مسابقت برقرار رکھیں۔ سنیئر نائب صدر ایف پی سی سی آئی ثاقب فیاض مگوں نے روشنی ڈالی کہ ایکسپورٹ فیسیلیٹیشن اسکیم کو اس کے دائرہ کار میں مقامی صنعت کاروں کو بھی شامل کرنا چاہیے؛بصورت دیگر،پاکستان میں انڈسٹریل سپالئی الئن میں رکاوٹیں اور پاکستانی مصنوعات کے لیے عالقائی اور بین االقوامی منڈیوں میں مسابقت کا فقدان پیدا ہو جائے گا۔سنیئر نائب صدر ایف پی سی سی آئی ثاقب فیاض مگوں نے اس بات پر بھی فیڈریشن کی ناراضگی کا اظہار کیا کہ ایف پی سی سی آئی کی آئی ٹی اور آئی ٹی پر مبنی خدمات؛ کانوں و معدنیات اور ماہی گیری کی صنعتوں کے لیے وفاقی بجٹ 26-2025 میں خصوصی مراعات کے پیکجز النے کی ایف پی سی سی آئی کی سفارشات کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایسی انڈسٹریاں ہیں کہ جو پاکستان میں برق رفتار تیزی سے ترقی کر سکتی ہیں۔نائب صدرایف پی سی سی آئی آصف سخی نے کہا کہ ٹیکس حکام کو کاروباری برادری پر ٹیکس چوری کا الزام لگانا بند کرنا چاہیے اور اس کے بجائے ٹیکس دہندگان کے ساتھ دوستانہ اور قابل احترام رویے کے ذریعے خود کو ایک سہولت کار مشینری میں تبدیل کرنا چاہیے۔نائب صدر ایف پی سی سیٓئی امان پراچہ نے تجویز پیش کی کہ ایف بی آر کی مالی سال 2025 کے ٹیکس وصولی کے ہدف کو حاصل کرنے میں ناکامی کی بنیادی وجہ معلوم کرنے کے لیے ایک اعل ٰی اختیاراتی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنائی جائے۔ نائب صدر ایف پی سی سی آئی ناصر خان نے روشنی ڈالی کہ بہت سے کاروباری افراد پہلے ہی زیادہ منافع بخش و مستحکم سرمایہ کاری، تجارت اور صنعتی ماحول کی خاطر ملک سے جا چکے ہیں اور باقی ماندہ بزنس کمیونٹی کو بھی نقصان اٹھائے بغیر اپنی فیکٹریاں چالنا اب بہت مشکل نظر آ رہا ہے۔ایف پی سی سی آئی نے اپنی ایک اور تشویش کا اظہار بھی کیا کہ اسپیشل اکنامک زونز کے ڈیویلپرز پر 10 سال یا ٹیکس سال 2035 تک کی مدت تک پابندی عائد کی گئی ہے۔ اس پر ایف پی سی سی آئی کا مؤقف SEZs ہے کہ کسی بھی صنعت کو قائم کرنے میں کم از کم 2 سے 3 سال کا وقت درکار ہوتا ہے اور جب یہ کاروبار عملی طور پر پیداوار یا ریونیو پیدا کرنا شروع کریں گے تو یہ مدت 10 سال سے کہیں کم رہ جائے گی۔ل ٰہذا، ایف پی سی سی آئی کا مطالبہ ہے کہ اس مدت کو اور مقامی FDI بڑھا کر کم از کم 20 سال یا ترجیحا 30 سال کیا جائے؛ تاکہ، اسپیشل اکنامک زونز میں غیر ملکی سرمایہ کاری ً سرمایہ کاری کو راغب کیا جا سکے۔