آئی پی پیز کے ظالمانہ معاہدوں کو کالعدم قرار دیا جانا چاہیے ثاقب فیاض مگوں، قائم مقام صدر، ایف پی سی سی آئی
کراچی (5 جوالئی 2024): ایف پی سی سی آئی کے قائم مقام صدر ثاقب فیاض مگوں نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز کے ساتھ کیئے گئے معاہدے منسوخ کیے جائیں اور قومی گرڈ کے لیے سستے اور کم الگت ذرائع سے بجلی حاصل کی جا ئے؛جن میں نا جائز شرائط اورکیپیسٹی چارجز کا عمل دخل نا ہو۔ قائم مقام صدر ایف پی سی سی آئی ثاقب فیاض مگوں نے بتایا کہ بجلی کے ناقابل برداشت نرخوں کی وجہ سے بڑے پیمانے پر صنعتی یو نٹس کی بندش کا سامنا ہے اور بڑے پیمانے پر بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔انہو ں نے واضح کیا کہ ملک میں 40,000 میگاواٹ سے زیادہ کی پیداواری صالحیت موجود ہے؛ جب کہ زیادہ سے زیادہ ڈیمانڈاور ڈسٹریبیوشن کی صالحیت محض 25,000 میگاواٹ ہے۔ لہذا، ملک میں نمایاں طور پر بجلی کی اضافی اورغیر ضروری پیداواری صالحیت موجودہے۔ ایف پی سی سی آئی کے قائم مقام صدر ثاقب فیاض مگوں نے بتایا کہ 40 کمپنیوں کو 2 ٹریلین روپے کے کیپیسٹی چارجزکی ادائیگیاں قومی معیشت کو مفلوج کر رہی ہیں اور آئی پی پیز ظالمانہ انداز میں اس بات سے قطہ نظربھی کیپیسٹی چارجز وصول کرتی رہتی ہیں کہ وہ بجلی پیدا کریں یا نہ کریں۔واضح رہے کہ کیپیسٹی چارجز بجلی کی کل الگت کا دو تہائی بنتے ہیں؛ جبکہ ایندھن کی قیمت صرف ایک تہائی پر مشتمل ہے۔ ثاقب فیا ض مگوں نے کہا کہ تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ آئی پی پیز ڈالر کے لحاظ سے 73 فیصد سے زیادہ منافع حاصل کر رہی ہیں؛ جو کہ بین االقوامی معیارات کے مقابلے میں غیر معمولی طور پر زیادہ اور ظالمانہ ہے۔ پاکستان کا انرجی سیکٹر 1994 کی پاور پالیسی کے بعد سے آئی پی پیز کے ساتھ مسلسل ان معاہدات کے مسائل میں پھنسا ہوا ہے۔ ان معاہدوں کی وجہ سے پاکستان کا گردشی قرضہ فروری 2024 تک 2.64 ٹریلین روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکی ڈالر کے ساتھ انڈیکس کی گئی گارنٹی کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی روپے کی قدر میں کمی آئی پی پیز کے لیے منافع میں اضافہ کرتی ہے؛ جس سے حکومت اور عوام دونوں پر مالی بوجھ میں اضا فہ ہو تا ہے۔ ایف پی سی سی آئی کے قائم مقام صدر ثاقب فیاض مگوں نے آگا ہ کیا کہ آئی پی پیز کے لیے ایکویٹی پر ابتدائی منافع 18 فیصد مقرر کیا گیا تھا اور بعد میں 2002 کی پاور پالیسی میں اسے کم کر کے 12 فیصد کر دیا گیا تھا۔ لیکن پھر بھی یہ عالمی معیارات کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ ایف پی سی سی آئی کے قائم مقام صدر ثاقب فیاض مگوں نے کہا کہ دوسرے ممالک میں اسی طرح کے منصوبوں کے ساتھ الگت کا موازنہ بتاتا ہے کہ بہت سے آئی پی پیز کو سرمایہ کاری سے متعلقہ کیپٹل گڈز پر بڑھا چڑھا کر پیش کی جانے والی انوائسنگ کے ذریعے فنڈز فراہم کیے گئے تھے؛ جو کہ ایکویٹی پر مستقل طور پر نا جائز منافع خوری کا باعث بنتا ہے۔ کوئلے پر مبنی پالنٹس کا ٹیرف مالی سال 25-2024کی بجلی کی خریداری کی قیمت کے مطابق بنگلہ دیش میں اسی طرح کے پالنٹس کے لیے 5.6 سینٹس کے مقابلے میں پاکستان میں 9 سینٹس ہے۔ اسی لیے درآمدی کوئلے پر مبنی پالنٹس میں پاکستان کو سب سے زیادہ کیپیسٹی چارجز کا سامنا ہے؛جو کہ 60.48 فی کلو واٹ آور ہیں۔جبکہ اس کے مقابلے میں تھرمل جنریشن 26.01 فی کلو واٹ آور ہے۔ ایف پی سی سی آئی کے قائم مقام صدر نے اس بات پر زور دیا کہ آئی پی پیز کی جانب سے غلط رپورٹنگ اور اوور بلنگ ایک معمول کی کنٹریکٹ کے تحت دی جاتی ہے۔ تیل پر مبنی Pay or Take بات ہے؛ کیونکہ ٹیرف کی ضمانت بین االقوامی قانون کے تحت متعدد پالنٹس کی اصل تیل کی کھپت آئی پی پیز کے بل سے کم ہوتی ہے اور تضادات کو آڈٹ کرنے کی کوششوں میں اکثر قانونی ذرائع سے رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں۔مزید برآں، آپریشنل اور دیکھ بھال کے اخراجات نمایاں طور پر زیادہ شرحوں پر بل کیے جانے کے ذریعے حقیقی اخراجات کے مقابلے میں بڑھا کر پیش کیے جاتے ہیں۔ بجلی کے نرخوں میں حالیہ اضافہ پاکستان کی کاروباری برادری میں شہری بدامنی اور عدم اطمینان کو جنم دے سکتا ہے۔ ایف پی سی سی آئی کا مطالبہ ہے کہ آئی پی پی معاہدوں کا جامع جائزہ لیا جائے۔ قانونی حدود کے اندر قیمتوں کا از سر نو جائزہ اور اوور انوائسنگ کو روکنے کے لیے بہتر نگرانی کی اشد ضرورت ہے۔ غلط معلومات اور دھوکہ دہی سے متعلق شقوں کے لیے توانائی کے بنیادی ڈھانچے کی جانچ بھی ضروری ہے۔ایف پی سی سی آئی کے قائم مقام صدر ثاقب فیاض مگوں نے تجویز پیش کی کہ وفاقی حکومت کو قومی مفاد میں آئی پی پیز سے نمٹنے اور صنعت کے لیے بجلی کی سستی قیمتوں کو یقینی بنانے کے لیے حکمت عملی وضع کرنی چاہیے۔
بریگیڈیئر افتخار اوپل، ایس آئی (ایم)، ریٹائرڈ
سیکریٹری جنرل