
ایف پی سی سی آئی نے مستقبل میں سیالب سے ہونے والے نقصانات کو کم کرنے کے لیے الئحہ عمل پیش کردیا سلیمان چاؤلہ،قائم مقام صدر، ایف پی سی سی آئ
کراچی (23 مئی2023): قائم مقام صدر ایف پی سی سی آئی سلیمان چاؤلہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں بار بار آنے والے سیالبوں کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کہ جس سے قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوتی ہیں؛ فصلیں تباہ ہوتی ہیں اور مجموعی طور پر معیشت کا بے پناہ نقصان ہوتا ہے کو کم کرنے کے لیے الئحہ عمل اور سفارشات پیش کی ہیں۔ انہوں نے یاد دالیا کہ یہ نقصانات سال 2022 میں تا ریخی طور پر ناقابل بیان حد تک پہنچ گئے تھے؛جس کے نتیجے میں 3 کروڑ 30الکھ افراد بری طرح متاثر ہوئے تھے اور ملک کو 30 ارب ڈالر کا مجموعی مالی نقصان ہوا تھا۔ لہذا، ہمیں بحیثیت قوم ان خطرات سے نمٹنے اور دوبارہ اس طرح کی تباہی سے بچنے کے لیے سخت محنت کرنا ہو گی۔ قائم مقام صدر ایف پی سی سی آئی سلیمان چاؤلہ نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں اپنی گورننس کو بہتر کرنا ہوگا اور پاکستان کو درپیش ماحولیاتی تبدیلیوں کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے تیار ہو نا ہو گا۔ واضح رہے کہ دنیا کے کل کاربن اخراج کا صرف 0.8 فیصد حصے کا ذمہ دار ہونے کے باوجود پاکستان اپنے حصے سے کہیں زیادہ گلوبل وارمنگ کی تباہ کاریوں کا سامنا کر رہا ہے اور اس کے باوجود ترقی یافتہ دنیا پاکستان کو خاطر خواہ اور ٹھوس امداد فراہم کرنے سے گریزاں ہے۔ قائم مقام صدرایف پی سی سی آئی سلیمان چاؤلہ نے ملک کی اعل ٰی ترین تجارتی اور صنعتی باڈی کے پلیٹ فارم سے درج ذیل سفارشات پیش کی ہیں:(i )ہر قسم کے ایسے تعمیر شدہ ڈھانچے یا انفراسٹرکچر کو ہٹایا جائے کہ جو پانی کے ہموار بہاؤ میں رکاوٹ پیدا کر رہے ہیں؛:(ii )سیالب سے در پیش خطرات کو کم کرنے کے لیے تعمیراتی معیارات پر نظر ثانی کی جائے؛ (iii )نقد رقم کی تقسیم کی بجائے فصلوں، مکانات اوردکانوں وغیرہ کے لیے انشورنس اسکیموں کا اجراء کیا جانا چاہیے؛ )iv )قدرتی آفات کی بہتر مینجمنٹ اور صوبائی و وفاقی حکومتوں کی مدد؛مسلح افواج؛ نجی و غیر منافع بخش قومی و بین االقوامی اداروں کی مدد سے ریسکیو، ریلیف اور بحالی کے قدامات کی بہترتیاری کے لیے مقامی حکومتوں کے نظام کی فعال بحالی اشد ضروری ہے؛ (v)دیہاتوں، قصبوں اور اضالع میں تباہ شدہ انفراسٹرکچر کے اسباب کو سمجھنے کے لیے یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں میں تحقیقی مطالعات اور سروے ہونے چائیں؛ )2022 (vi) کے تباہ کن سیالب کے تجربات کی بنیاد پر پالیسی مداخلتیں وضع کی جائیں گی؛ تاکہ پاکستان کو مستقبل میں قدرتی یا انسان کی خودساختہ آفات کے حوالے سے مضبوط بنایا جا سکے؛ (vii )مٹی کے کٹاؤ کو روکنے اور سطح و زیر زمین پانی کے بہاؤ کو ریگولیٹ کرنے کے لیے پورے ملک میں واٹرشیڈ مینجمنٹ اسٹڈیز اور سرگرمیوں کو حکومت کی جانب سے مدد دی جانی چاہیے؛ جن میں اربن ڈویلپمنٹ اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی )سڑکیں، پل وغیرہ(؛ فصلوں و کاشتکاری اور درختوں کی کٹائی کی وجہ سے تبدیلیاں ہو گئی ہیں۔ نائب صدر ایف پی سی سی آئی انجینئر ایم اے جبار نے آگاہ کیا کہ ملک میں 150 چھوٹے بڑے ڈیم ہیں اور پانی کو محفوظ کرنے اور مستقبل میں آنے والے سیالبوں کو کم کرنے کے لیے آبی ذخائر کی صالحیتوں کو بڑھانے کی فوری ضرورت ہے۔ مزید برآں، اسکول اور کالج کی سطح پر، ماحولیات اور پانی کے انتظام سے متعلق آگاہی کو اساتذہ کے لیے تربیت کے ذریعے فروغ دیا جانا چاہیے اور ان تصورات کو نصاب میں مؤثر طریقے سے متعارف کرانا چاہیے۔ایف پی سی سی آئی کی مرکزی قائمہ کمیٹی برائے ماحولیات کے کنوینر پروفیسر ڈاکٹر وقار حسین نے کہا کہ ہمیں سائنس پر یقین رکھنا چاہیے اور ڈیموں اور آبی ذخائر کے لیے سائٹ کے انتخاب کے وقت ارضیاتی و جیو ٹیکنیکل اسٹڈیز کرنی چاہیں؛ بلڈنگ کوڈز پر سختی سے عمل درآمد ہونا چاہیے اور بین االقوامی بیسٹ پریکٹسسزکی بنیاد پر ملک میں تعمیراتی معیارات کو بہتر بنایا جانا چاہیے۔
سیبریگیڈیئر افتخار اوپل، ایس آئی(ایم)، ریٹائرڈ
سیکرٹری جنرل